تقدیر یا تدبیر: سرفراز اے شاہ

 

تقدیر یا تدبیر

سرفراز اے شاہ کی فقیر نگری سےاقتباس

سوال: جب اللہ کے حکم کے بغیر ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا اور ہر شخص کی تقدیر پہلے سے  لکھی ہوئی ہے تو ایسے میں جو شخص چوری یا قتل کررہا ہے تو کیا وہ اسکی تقدیر ہے؟

جواب: اس میں کوئی شک نہیں کہ رب تعالیٰ مالک کل ہے اور اسکے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا۔ یہ بھی درست ہے کہ تقدیر پہلے سے طے ہے لیکن وہ تقدیر یہ نہیں ہے کہ یہ شخص مجرم ہو گا یا پاکباز اور نیک انسان ہوگا۔ اگر یہ تقدیر ہوتی اور اللہ کے حکم کے بغیر پتا نہ ہلنے سے مراد وہی ہوتی جو ہمارا نوجوان طبقہ یا دوسرے لوگ سمجھ رہے ہیں تو رب تعالیٰ دو کام کبھی نہ کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے ہمارے لئے صحیح رستہ نہ صرف متعین کیا بلکہ باربار اپنے انبیا ئے کرام کے ذریعے بھی ہمیں راہ ہدایت دکھائی۔ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجے اور نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ آپ ختم ہو گیا۔ آپکے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد یہ ذمہ داری علما پر ڈال دی گئی کہ وہ رب ےعالیٰ کے پیغام کو پھیلاتے رہیں۔ اسکو لوگوں کے ذہنوں سے محو نہ ہونے دیں اور اس پر گرد نہ جمنے دیں۔ یہ پیغام قیامت تک کے لئے کافی ہے۔

اگر تقدیر پہلے سے ہی مقرر تھی، تو رب تعالیٰ کو سیدھا راستہ متعین کرنے کے بعد باربار رسول، نبی یا پیغمبر بھیج کر لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر رب تعالیٰ نے ہی سب کچھ طے کرنا ہوتا اور ہمارے اعمال کی کوئی اہمیت نہ ہوتی تو کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ وہ تو سیدھا سیدھا پکڑ کر بندوں کو جنت یا دوزخ میں ڈال دیتا جب کہ اسکے برعکس رب تعالیٰ نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ یہ سیدھا راستہ ہے۔ اس پر چلو اسکے انعامات بہت ہیں۔

دوسری چیز یہ ہے کہ اگر کسی بھی شخص کی بطور مجرم (معاذاللہ) تقدیر پہلے سے مقرر ہوتی اور اگر وہ اپنی  تقدیر کے مطابق جرم کرتا پھر تو گویا اسنے وہ کام کیا جسکے لئے اسے تخلیق کیا گیا ہے۔ پھر اسے سزا کاہے کی ملے گی؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا کہ جو میرے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ گیا اس کے لئے سزا ہے۔

رب تعالیٰ نے کسی انسان کی تقدیر اس طرح سے مقرر نہیں کی کہ کوئی شخص مجرم ہوگا یا پاکباز۔۔۔یہ انسان پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اعمال سے اپنی تقدیر مقرر کرے۔

رب تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا ہے۔ رب تعالیٰ قادر مطلق ہے اور وہ انصاف کرتا ہے۔ جس طرح ایک آفیسر کا نمبر ٹو کبھی بےاختیار نہیں ہوتا، اسے اتھارٹی دی جاتی ہے۔ اپنے نائب کو اتھارٹی دینے کے باوجود آفیسر یہ اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے کہ جب چاہے اس سے وہ اتھارٹی واپس لے لے۔ قادر مطلق رب تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ قادر مطلق رب نے انسان کو بڑی حد تک دنیاوی طور پر قادر بنایا ہے۔ اس نے انسان کو تین آزادیاں دی ہیں:

۱۔ سوچ کی آزادی

۲۔ فیصلے کی آزادی

۳۔ عمل کی آزادی

ہم جو چاہیں، فیصلہ کریں اور جس راستے پر چاہیں چل پڑیں۔ ہمیں کوئی فرشتہ آکر اس سوچ، فیصلے اور عمل سے نہیں روکے گا۔ رب تعالیٰ ہمیں روزمرہ زندگی کے معمولات کے بارے میں وارننگز دیتا ہے، تنبیہ کرتا ہے، اشارے دیتا ہے کہ رک جاوٗ۔ وہ ھمارا ہاتھ نہیں پکڑتا۔ رب تعالیٰ ہماری اس آزادی میں خلل نہیں ڈالتا۔ اس نے ہمیں تین آزادیاں عطا فرمایئں کہ جو چاہے کرو لیکن ساتھ ہمیں یہ بھی بتا دیاکہ اگر میرے بتائے ہوئے رستے پر نہ چلے تو تمھیں لوٹ کر میرے پاس ہی آنا ہے۔ وہاں یہ سزائیں تمھیں دی جائیں گی۔

اب یہ جو دلیل لائی جاتی ہے کہ اسکے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ ہم میں سے اکثر افراد کے گھر کئی کئی ملازم ہیں۔ آپ گھر کے سربراہ ہیں لیکن جب آپکا ملازم بےپروائی سے کام کرتے ہوئے آپکی کراکری توڑ دیتا ہے تو کیا اسمیں آپکا کوئی کنسرن شامل ہوتا ہے؟ یا آپکی اتھارٹی ختم ہو گئی ہوتی ہے؟ اور جب آپکا ڈرائیور جوآپکا ماتحت اور آپکے حکم کا پابند ہے آپکی گاڑی گھر سے لیکر چلا جاتا ہے اور سڑک پر ٹریفک کی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گاڑی کہیں مار دیتا ہے تو کیا اسمیں آپکا کوئی کنسرن شامل ہوتا ہے؟ یا آپکی اتھارٹی کم ہو چکی ہوتی ہے؟

حقیقت تو یہ ہے کہ اس سب کے باوجود آپ اپنے گھر کے سربراہ ہی رہیں گے۔ آپکا فیصلہ ہی آخری فیصلہ ہوگا۔ آپکا حکم ہی آخری حکم ہوگا۔ ڈرائیور نے سڑک پر گاڑی مار دی۔ اسنے آپکے احکامات کی خلاف ورزی کی ہے۔ آپکی ہدایات کی نافرمانی کی ہے جسکی وہ سزا پائے گا۔ یہ بہت چھوٹا سا کینوس ہے۔ اسے بڑے کینوس پر لے جائیں۔ آپ ایک ملک میں رہتے ہیں۔ بطور شہری آپ اپنی رائے یا ووٹ سے ملک کے وزیراعظم کا انتخاب کرتے ہیں۔ پھر آپ اسی ملک میں رہتے ہوئے کوئی جرم کرتے ہیں تو وہی حاکم یا وزیراعظم آپکو سزا دیتا ہے۔ وہ آپکوچوری کرنے یا کسی غلط کام کرنے سے آکر نہیں روکتا۔ لیکن اسنے ملکی قانون وضع کر دیے ہیں کہ آپ فلاں کام کر سکتے ہیں اور فلاں کام نہیں کر سکتے۔ اگر آپ ان قوانین کی خلاف ورزی کریں گے تو سزا مل جائے گی۔ آپ اپنی مرضی سے غلط کام تو کر لیتے ہیں لیکن اتھارٹی وزیراعظم کی ہی رہتی ہے جو ایک حکومت کا چیف ایگزیکٹو ہے۔

بالکل اسی طرح رب تعالیٰ کا سلسلہ ہے۔ یہ کائنات رب تعالیٰ کی ہے۔ وہ مالک ہے۔ مرضی بھی اسی کی ہے۔ اس کے حکم کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ اس نے ہمیں تین آزادیاں دیں اور ہمیں سیدھا رستہ بھی بتا دیا۔ اوامرونواہی کی تفصیلات بھی ہمیں دے دیں۔ یہ بھی بتا دیا کہ اسکے احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں ہم سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔ لیکن اگر ہم غلط کام کرتے ہیں تو اس وجہ سے رب تعالیٰ کی اتھارٹی کم یا ختم نہیں ہو گی۔

Leave a Comment

Verified by MonsterInsights