تحریر: پاوٗلو کوہلو
ترجمہ: قمر خان قریشی
لوگ ہمیشہ کہتے ہیں، ‘باہر کی خوبصورتی کوئ معنی نہیں رکھتی اور یہ کہ اندر کی خوبصورتی ہی سب کچھ ہوتی ہے۔’ خیر یہ اتنا بھی سچ نہیں ہے۔
اگر یہ سچ ہوتا تو پھولوں کو شہد کی مکھی کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے اتنی توانائ کیوں خرچ کرنا پڑتی؟
اور بارش کے قطروں کو سورج کا سامنا کرنے پڑ قوس قزاح میں بدل جانے کی ضرورت ہی کیوں پڑتی؟
اسکی ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ قدرت کو خوبصورتی پسند ہے اور وہ صرف تبھی مطمئن ہوتی ہے جب خوبصورتی خود کو پوری طرح سے عیاں کر دیتی ہے۔
باہر کی خوبصورتی، باطنی خوبصورتی کا ایک ظاہری رخ ہے جو ہماری آنکھ سے نکلنے والی روشنی کے ذریعے آشکار ہوتا ہے۔
اسکا تعلق کسی بھی انسان کے پہناوے سے نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس بات سے اسکا لینا دینا ہوتا ہے کہ کوئ ہمارے طے کردہ خوبصورتی کے معیار پر اترتا ہے یا نہیں۔ مزید براں اسکا تعلق کسی کو متاثر کرنے سے بھی نہیں ہوتا۔
میں فیشن کی بات نہیں کر رہا، میں اس روشنی کی بات کر رھا ہوں جو ہم سب کے اندر کی چاشنی ہے۔
آنکھیں روح کا آئینہ ہوتی ہیں اور جو بھی وہاں چھپا ہوتا ہے، اسکی عکاسی کرتی ہیں، اور بالکل ایک آئینہ کی مانند ہی اس انسان کی بھی عکاس ہوتی ہیں جو ان کے اندر جھانک رہا ہوتا ہے۔
تو اگر اس انسان کی روح کالی ہے، جو کسی کی آنکھوں میں دیکھ رہا ہوتا ہے تو اسے صرف اور صرف اپنی بدصورتی اور کالاپن ہی نظر آئے گا۔
لہٰذا میں آپ سے التماس کرتا ہوں: چمکیں!
خدا کی بنائ ہوئ تمام مخلوقات میں خوبصورتی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئ ہے۔ لیکن خطرہ اس حقیقت میں پوشیدہ ہوتا ہے کہ ہم انسان اکثر خدا کی عطا کردہ بھر پور طاقت سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں، ہم خود کو دوسروں کی بے رحم سوچوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ہم خود اپنی خوبصورتی کا انکار کرتے رہتے ہیں کیونکہ دوسرے اسے نہیں سراہتے یا پہچاننے سے انکاری ہوتے ہیں۔
خود کو خودی کے طور پر قبول کرنے کے بجائے، ہم اپنے ارد گرد کی چیزوں کی نقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
ہم دوسروں کی تشریح کے مطابق ‘خوبصورت’ بننے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں، اور آہستہ آہستہ، ھماری روح مدھم ہوتی جاتی ہے، ھماری قوت ارادی کمزور پڑنے لگتی ہے، اور ھمارے اندر کی وہ تمام ممکنات جنکو بروئے کار لاتے ہوئےیہ دنیا ایک خوبصورت جگہ بن سکتی ہے، ماند پڑ جاتی ہیں۔