تحریر: ھئوسائے
ترجمہ: قمر خان قریشی
جان بلانچارڈ، بنچ پر سے اٹھا، اپنا آرمی کا یونیفارم ٹھیک کیا اور گرینڈ سنٹرل سٹیشن میں داخل ہونے والے لوگوں کے ہجوم کو پڑھنے لگا۔ وہ اس لڑکی کی تلاش میں تھا جسکے دل کو تو وہ بہت اچھے سے جانتا تھا مگر اس کے چہرے سے واقف نہیں تھا، وہ لڑکی جس کے ہاتھ میں گلاب ہونا چاھیئے تھا۔
اس لڑکی میں جان کی دلچسپی تب پیدا ہوئ جب تیرہ ماہ پہلے فلوریڈا کی ایک لاٰئبریری میں اس نے ایک کتاب شیلف سے نکالی اور اس میں لکھے سائیڈ نوٹس اسکے ہوش اڑا لے گئے۔ پنسل سے خوبصورت لکھائ میں لکھے وہ نوٹس کسی باخبر روح اور بصیرت شعار ذہن کی عکاسی کر رہے تھے۔
کتاب کے سطحی حصہ پر، جان نے پچھلے مالک کا نام ڈھونڈ نکالا، مس ہولی مینل۔ کچھ وقت اور کوشش کے بعد اسے اسکا پتہ بھی مل گیا۔ وہ نیویارک سٹی میں رہتی تھی۔ جان نے اسے خط لکھا اور خط و کتابت کی دعوت دی۔
اگلے ہی روز اسے دوسری جنگ عظیم میں خدمات سرانجام دینے بیرون ملک بھجوا دیا گیا۔ اگلے ۱۲ مہینے اور ۱ ماہ وہ دونوں ایک دوسرے کو بذریعہ ڈاک پہچانتے رہے۔ ہر نیا خط زرخیز دل پر ایک بیج کی طرح گرتا رہا اور محبت پھلتی رہی۔ جان نے تصویر کی درخواست کی مگر ہولی نے یہ سوچ کر انکار کر دیا کہ اگر اسے واقعی محبت ہے تو اسکی شکل صورت کوئ معنی نہیں رکھتی۔
جب ملاقات کا دن آیا اور جان بالآخر یورپ سے واپس آگیا تو انھوں نے گرینڈ سنٹرل سٹیشن پر شام ۷ بجے ملنے کا وقت طے کیا۔
‘تم مجھے میرے کوٹ پر لگے لال گلاب سے پہچان لو گے،’ ہولی نے لکھ بھیجا۔ چناچہ شام ۷ بجے وہ سٹیشن پر پہنچ چکا تھا؛ اس لڑکی کی تلاش میں جس کے دل سے تو وہ محبت کرتا تھا مگر اسکے چہرے سے ابھی تک ناواقف تھا۔ اسکے بعد کا قصہ آپکو مسٹر جان بلانچرڈ خود سنائیں گے:
ایک جوان خوبصورت خاتون میری طرف بڑھ رہی تھی، جو دراز قد اور سمارٹ تھی۔ اسکے سنہری گھنگھرالے بال اسکے نازک کانوں کے پیچھے سلجھے ہوئے تھے، اسکی نیلی آنکھیں پھولوں جیسی تھی اور اسکے ہونٹ اور ٹھوری پر ایک تبسم سا تھا اور وہ ہلکے زرد رنگ کے سوٹ میں بہار کے موسم کا پتہ دے رہی تھی۔
میں اسکی طرف بڑھنے لگا، بغیر غور کئے کے اسنے کوئ گلاب نہیں لگا رکھا تھا۔ جیسے ہی میں نے حرکت کی، ایک چھوٹی سی مسکراہٹ اسکے ہونٹوں پر پھیل گئ اور گویا وہ بڑبڑائ، ‘میری طرف جا رہے ہو، ملاح؟’
تقریبآ بے قابو ہوتے ہوئےمیں نے اسکی طرف ایک قدم اور بڑھایا اور پھر میں نے ہولی مینل کو دیکھ لیا۔ وہ اس لڑکی کے بالکل پیچھے کھڑی تھی۔ ایک 40 سالہ عورت یا شاید اس سے بھی زیادہ، اسکے بالوں کی سفیدی اسکے ہیٹ میں سے ابل رہی تھی اور وہ کچھ زیادہ فربہ جسم کی مالک بھی تھی، اسکے موٹے موٹے ٹخنے چھوٹی چھوٹی ایڑی والے جوتوں میں جیسے دھنس سے گئے تھے۔ ہلکے زرد سوٹ والی لڑکی تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے غائب ہوگئ۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں دو ٹکڑوں میں بٹ گیا ہوں؛ ایک طرف مجھے شدید خواہش محسوس ہو رہی تھی کہ میں اس لڑکی کا پیچھا کروں اور دوسری طرف اس عورت کی کشش تھی جو میری روح میں اتر چکی تھی۔
اور ادھر کھڑی تھی وہ۔ اسکا زرد، فربہ چہرہ کسی سمجھدار اور سلجھے ہوئے انسان کا اشارہ دے رہا تھا۔ اسکی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ میں ہچکچایا نہیں۔ میری انگلیوں کی پکڑ اس نیلی چمڑے کی کاپی پر اور مضبوط ہو گئ جس سے اس نے مجھے پہچاننا تھا۔
یہ شاید پیار نہیں ہو سکتا، لیکن یہ کچھ بہت قیمتی ہو سکتا ہے، شاید کچھ ایسا جو پیار سے بھی بہتر ہو، ایسی دوستی جس کےلئےمیں بہت شکرگزار تھا اور تمام عمر رہوں گا۔
میں نے اپنے شانے سیدھے کئے، سیلوٹ کیا اور وہ کاپی اس عورت کی طرف بڑھا دی حالانکہ اس وقت مایوسی کی کڑواہٹ کی وجہ سے میری آواز میرے گلے میں پھنس کر رہ گئ۔
‘میرا نام جان بلانچارڈ ہے، اور آپ یقینآ مس مینل ہیں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے مجھ سے ملنے کا وقت نکالا؛ کیا آپ میرے ساتھ آج ڈنر کرنا پسند کریں گی؟’
اس خاتون کے چہرے پر یکدم ایک مسکراہٹ پھیل گئ۔ ‘مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں، بیٹا،’ وہ بولی، ‘لیکن جو لڑکی ابھی ابھی زرد سوٹ میں یہاں سے گئ ہے، اسنے مجھے درخواست کی کہ میں یہ گلاب اپنے کوٹ پر سجا لوں اور اس نے مجھے یہ بھی کہا کہ اگر تم مجھے ڈنر کی پیشکش کرو تو میں تمہیں بتا دوں کہ وہ لڑکی سڑک کے اس پار بڑے ریسٹورنٹ میں تمھارا انتظار کر رہی ہے۔ اس نے کہا کہ یہ ایک طرح کا امتحان ہے۔’