اگرچہ ہم خدا کے معین کردہ وقت کو اپنے قابو میں نہیں لا سکتے، مگر انسان فطرتاُ جلد باز ثابت ہوا ہے اسلئے جو شے ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اسکا انتظار ہمیں اندر ہی اندر کھانے لگتا ہے۔ یا کسی بھی طریقے سے اپنے ڈر اور خوف کو ختم کرنے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔
آخر کیسے آپ ایک پر جوش دل کو اس بات پر آمادہ کر پایئں گے کہ وہ صبرو تحمل، خاموشی، بغیر کسی فکر کے، اورادھورے جوابات کے ساتھ اپنا دھیان صرف اور صرف تخلیق کے معجزات پر مرکوز رکھے؟
بے چینی محبت کا ایک اہم پہلو ہے اور اسے اسکی وجہ سے موردالزام ٹھرانا ٹھیک نہیں ہے۔
آپ کیسے کسی ایسے انسان کو فکرمند ہونے سے منع کر سکتے ہیں، جس نے اپنی زندگی اور پیسہ کسی کام میں لگایا ہے اور اسے ابھی تک اسکا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں ملا؟ ایک کسان اپنے بوئے ہوئے بیجوں کی فصل کاٹنے کے لئے موسموں کی رفتار تیز نہیں کر سکتا، لیکن وہ بڑی بے چینی کے ساتھ خزاں کے موسم اور فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ آپ کیسے ایک جنگجو کو لڑائی سے پہلے ہونے والی بےتابی سے بچا سکتے ہیں؟ جس نے دن رات اس مقابلے کے لئے ایک کیا ہے، جس نے بھرپور محنت اور لگن سے تیاری کی ہے، اور جس لمحے وہ سمجھتا ہے کہ وہ پوری طرح سے تیار ہے، اسی لمحے اسے یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ کہیں اسکی ساری محنت خاک میں نہ مل جائے۔
بے چینی اور بے تابی انسان کے ساتھ ساتھ پیدا ہوئی۔ اور چونکہ ہم کبھی بھی اسے رام نہیں کر پائیں گے، اسلئے ہمیں اسکے ساتھ ہی جینے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم طوفانوں کے ساتھ رہتے ہیں۔