خوبصورتی یکسانیت میں نہیں بلکہ اختلاف میں ہوتی۔
کیا ایک زرافے کو اس کی لمبی گردن کے بغیر یا کسی کیکٹس کو اس کے کانٹوں کے بغیر محسوس کیا جاسکتا ہے؟
ہمیں گھیرے ہوئے ان پہاڑ کی چوٹیوں کی بے ترتیبی ہی ہے جو انہیں اتنا رعب دار بناتی ہے۔ اگر ہم انہیں ایک جیسا بنانے کی کوشش کر بھی لیں تو یہ یکدم ہماری عزت و احترام کے قابل نہیں رہیں گے۔
کسی بھی شے کا ادھورا پن اور نقص ہی ہے، جو ہمیں اپنی طرف کھینچتا ہے۔
جب ہم کسی صنوبر کے درخت کی طرف دیکھتے ہیں، تو یہ نہیں سوچتے، “اس کی شاخوں کی لمبائی ایک جیسی ہونی چاھیئے۔” بلکہ یہ سوچتے ہیں، “یہ کتنا مضبوط ہے.”
جب ہم کسی سانپ کو دیکھتے ہیں، کبھی نہیں کہتے، “یہ تو زمین پر رینگ رہا ہے جبکہ میں سر اٹھا کر چل سکتا ہوں۔”
ھم سوچتے ہیں، “یہ بھلے چھوٹا سہی، مگر اسکی کھال رنگین ہے، اس کی چال پرکشش ہے، اور یہ مجھ سے زیادہ طاقتور ہے۔”
جب ایک اونٹ صحرا کو پار کر لیتا ہے اور ہم اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں، یہ کبھی نہیں کہتے، “اس کا کب نکلا ہوا ہے اور اسکے بدصورت دانتوں کو تو دیکھو زرا.” ہم کہتے ہیں: “یہ اپنی وفاداری اور ہمیشہ میری مدد کرنے کی بدولت میری محبت کا حقدار ہے۔ اس کے بغیر میں کبھی بھی دنیا کو دیکھنے کا شوق پورا نہیں کرسکتا تھا۔”
سورج کے غروب ہونے کا منظر بےترتیب بادلوں کے درمیان گھرے ہوئے زیادہ خوبصورت لگتا ہے، کیونکہ صرف تبھی وہ مختلف رنگوں کا عکس پیش کر سکتا ہے، جن کی بنا پر خواب دیکھے جاتے ہیں اور شاعر لاجواب شعر کہنے کے قابل ہوتے ہیں۔
مجھے ان لوگوں پر ترس آتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں، “میں خوبصورت نہیں ہوں, اور اسی لیے محبت نے میرے دروازے پر کبھی دستک نہیں دی۔” دراصل، محبت نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا ، مگر جب انہوں نے دروازہ کھولا تو وہ محبت کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
وہ خود کو پہلے خوبصورت بنانے میں جتے ہوئے تھے، جبکہ اصل میں وہ جیسے تھے، بالکل ٹھیک تھے۔
وہ دوسروں جیسا نظر آنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، جبکہ محبت کو کسی اصل شے کی تلاش تھی۔
وہ اس روشنی کا عکس بننے کی کوشش کر رہے تھے جو باہر سے آ رہی تھی، مگر وہ بھول چکے تھے کہ سب سے
زیادہ روشنی اپنے اندر سے چھلکتی ہے