سرفراز اے شاہ
بہت سے لوگ میرے پاس آکر کہتے ہیں ‘شاہ صاحب! میرا آٹھ نو سال کا بچہ میری بات نہیں مانتا۔ دعا کر دیجیئے کہ وہ میرا کہنا ماننا شروع کر دے یا میرے جسم میں دردیں ہو رہی ہیں زرا دم کر دیجیئے یا میں نے بجلی کے میٹر کی درخواست دی ہوئی ہے، دعا کر دیجیئے کہ اسکا ڈیمانڈ نوٹ جاری ہو جائے۔’
قابل غور بات یہ ہے کہ ہم تن آسانی دیکھیں یا درپیش مسئلہ میں رب تعالیٰ کا حکم دیکھیں کہ صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے رب کیا فرماتا ہے۔ ساری بات اس ایک نکتے میں پوشیدہ ہے کہ ہمارے لئے رب تعالیٰ کے حکم کی اہمیت ہے یا پھر اپنی سہولت کی؟
فقیر ہمیشہ رب تعالیٰ کے حکم کو اہمیت و فوقیت دے گا اور رب کے قریب ہو جائے گا۔ رب تعالیٰ سے دوری تو ہم خود پیدا کرتے ہیں، فاصلے خود بڑھا لیتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی قربت نصیب نہیں ہوتی۔
بچے کی پیدائش پر جو پہلا تحفہ والدین اسے دے سکتے ہیں وہ ایک اچھا نام ہے۔ اس کے بعد ان پر فرض ہے کہ وہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اسکی بہترین تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں۔ اگر ہم بچوں کی تعلیم و تربیت میں محنت وحکمت دونوں کو کام میں لائیں پھر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں ‘یا اللہ! میرے اندر جو سکت تھی اسکے مطابق میں نے محنت کر لی ہے، اب تو میری اس محنت کو قبول فرما لے اور میری اولاد کو نیک اور صالح بنا دے۔’
ایسا نہیں ہے کہ ہم بچے کی تعلیم و تربیت پر توجہ ہی نہ دیں اور جب ناپسندیدہ نتائج آنے لگیں تو بجائے اپنے آپکو ٹھیک کرنے اور بچے پر محنت کرنے کے ہم دعا کرنے والوں کے پاس دوڑنے لگیں۔ یہ مومن کا طریقہ نہیں ہے۔ یہ طریقہ ہمیں بےعملی کی طرف لے جائے گا اور بے عمل و سست لوگوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔
اسی طرح ھمارے بہت سے دیگر معاملات ہیں جہاں ہم محنت کرنے کے بجائے دعا کروانے لگتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں کہ بجلی کے میٹر کی درخواست دی ہوئی ہے اور دعا یہ کروا رہے ہیں کہ ڈیمانڈ نوٹس جلدی ایشو ہو جائے۔ میرے نزدیک یہ خواہش کرنا کہ میرا کام پہلے ہو جائے اور دوسروں کا کام بعد میں ہو، غلط اور مومن کی شان کے خلاف ہے۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ جن لوگوں نے ہم سے پہلے اپلائی کیا ہے اگر آوٗٹ آف ٹرن ہماری باری پہلے آجائے گی تو انکی حق تلفی ہوگی۔ جو چیز کسی کا حق مار کر حاصل کی جائے وہ ہمارے لئے مبارک کیسے ہو سکتی ہے؟