“سی پیک سے کیا گیا خطرناک کھلواڑ….”
” پاک چینی دوستی سی پیک کے ذریعے اقتصادی شراکت داری میں بدلی اگر سی پیک کو روکا یا تعطل میں ڈالا گیا تو معیشت کو نقصان ہوگا۔ ” ۔۔۔۔ مولانا فضل الرحمن
” سی پیک گیم چینجر ہے۔اسے منجمد کرنا 22 کروڑ عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ چینی حکام کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔” ۔۔۔۔ شہباز شریف
جانتے ہیں ہوا کیا ہے؟
مبینہ طور پر ہمارے ہر دلعزیز نواز شریف نے چین کے ساتھ سی پیک کے حوالے سے کچھ ایسے معاہدے کر رکھے ہیں جن پر عمل کیا گیا تو حقیقتاً پاکستان چین کی ایسٹ انڈیا کمپنی بن جائیگا۔
56 ارب ڈالر کا بہت بڑا حصہ سرمایہ کاری نہیں بلکہ قرض ہے اور خاصے بھاری سود پر جس کی تفصیلات حکومت جلد عام کرنے والی ہے، جو کہ پاکستان کے پہلے سے موجود 93 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے کے ساتھ ملکر پاکستان کی رہی سہی معاشی کمر بھی توڑ دے گا۔
راہداری کے عوض پاکستان کو جو رقم ملے گی اس سے چینی قرضے کے سود کی ادائیگی بھی ممکن نہیں ہوگی۔
چین گوادر کے پاس اپنی بحریہ بھی رکھے گا۔
چین سی پیک کے ساتھ ساتھ قائم کی گئی صنعتوں میں جہاں جہاں سرمایہ کاری کرے گا وہاں چینی ورکرز رکھے گا۔
ان صنعتوں پر حکومت پاکستان کوئی ٹیکس نہیں لے سکے گی۔
پاکستان میں چینی کالونیاں بھی قائم کی جائیں گی جن کی سیکیورٹی چین اپنے پاس رکھے گا۔
چینیوں کو بغیر ویزے کے پاکستان میں داخلے کی اجازت ہو گی جبکہ پاکستانیوں کو چین میں داخل ہونے کے لیے یہ سہولت میسر نہیں ہوگی۔
امید ہے آپ کی آنکھیں اور دماغ کھل گیا ہوگا 🙂
ان سب سہولیات کے بدلے میں نواز شریف کو کیا ملا؟
چین کے کئی بینکوں میں بہت بڑی لوٹ کی رقم محفوظ کی گئی۔
کئی چینی کمپنیوں سے اربوں روپے کی کک بیکس لی گئیں۔
اور شہباز شریف کو اورینج ٹرین منصوبے کے لیے چین نے کئی سو ارب روپے قرضہ دیا جس کو وہ چینی سرمایہ کاری قرار دیتا رہا۔ ج کہ چین کا دماغ خراب نہیں ہوا کہ وہ ایسے احمقانہ منصوبوں میں پیسے لگائے۔
اندازہ کیجیے ان معمولی اور خودغرضانہ فوائد کے عوض پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ گروی رکھ دیا گیا۔
احسن اقبال سے جب بھی چین کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا پوچھا جاتا موصوف اس کو قومی راز قرار دیتے۔
پی ٹی آئی کی اپنی حکومت آئی تو انہیں ان معاہدوں کی ہوشربا تفصیلات کا علم ہوا جس کے بعد پی ٹی آئی قیادت نے عسکری قیادت کے ملکر ان معاہدوں کو ریورس کرنے اور پاکستان کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے نئے معاہدے کرنے کا فیصلہ کیا۔
جس پر چینی حکومت نے ابتدائی اعتراض کے بعد کسی حد تک رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
چین ہمارا دوست ہے لیکن دوست سے زیادہ وہ ایک بزنسمین ہے۔ وہ آپ سے جو بھی معاہدہ کرے گا اس میں زیادہ سے زیادہ اپنے قومی مفاد کو مد نظر رکھے گا۔ تب یہ آپ کا کام ہے کہ ایسا معاہدہ کریں جس میں پاکستان کا مفاد بھی ہو۔
چینی ذہنیت کی ایک مثال دیا میر بھاشا ڈیم ہے جس کی تعمیر کیلئے چین نے یہ شرط رکھی کہ ” ڈیم اسکا ہوگا” ۔۔ ظاہر ہے عمران خان نے یہ شرط تسلیم نہیں کی۔
خدا نخواستہ اس وقت عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں ائر پورٹس اور موٹر ویز بیچنے والی ن لیگ ہوتی تو ڈیم بیچ چکی ہوتی اور چین سے 14 ارب ڈالر کھرے کر چکی ہوتی۔
پاک فوج ان معاملات سے خبردار رہی لیکن وہ ن لیگ کو روک نہ پائی۔
گمان غالب ہے کہ جے آئی ٹی کے والیوم ٹن میں اسی حوالے سے کچھ مواد شامل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے والیوم ٹن کو حساس قرار دے کر اس کی اشاعت روک دی گئی تھی۔
اب شہباز شریف اور فضل الرحمن چینی حکومت کو معاہدات ریورس کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دبے لفظوں میں چین سے فرمائش کر رہے ہیں کہ ” آپ عمران خان کے خلاف ہمارا ساتھ دیں۔ سی پیک کے ساتھ ہم وہی کرینگے جو آپ چاہیں گے” ۔۔۔ 🙂
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فضل الرحمن محض ن لیگ کا نمائشی ٹٹو نہیں تھا بلکہ اس طرح کے معاملات سے نہ صرف باخبر تھا بلکہ نواز شریف کا ڈٹ کر ساتھ بھی دیتا رہا۔
سی پیک سے کیا گیا یہ کھلواڑ ن لیگ اور جے یو آئی کے تابوب میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر انہوں نے چین کو پاکستان کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی بنانے کی کوشش کی تو یہ دور جدید کے میر جعفر اور میر صادق ہیں۔
اللہ ان کو مزید رسواء اور برباد کرے!