تحریر: پائولو کوہلو ترجمہ: قمر خان قریشی
جیسے کسی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے کئی راستے ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے بھی بہت سے رستے پائے جاتے ہیں۔ ہمیں صرف اس ایک رستے کو تلاش کرنا ہے جو چلنے کے قابل ہو، ایسا رستہ جس پر ہمیں محبت کو ڈھونڈنے میں آسانی ہو۔
ہمیں اپنے اندر سوئے ہوئے پیار کو جگانے کے لئے محنت کرنا پڑے گی، پیشتر اسکے کہ ہم دوسروں میں اسے جگانے کی کوشش کریں۔ اور صرف ایسا کر پانے سے ہی ہم محبت، جوش اور عزت و احترام کو اپنی طرف کھینچ پائیں گے۔
ہمیں اپنی مدد آپ کرنی چاھئیے، ان لڑائیوں کو جاننے اور پہچاننے میں جو ھماری اپنی ہیں، وہ لڑائیاں جنکے اندر ہمیں ہماری مرضی کے خلاف شامل کر لیا گیا ہے اور جنکو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کیونکہ تقدیر نے انھیں ہمارے رستے میں رکھ دیا ہے۔
خدا کرے کہ ہمیں ایسی نگاہ عطا ہو جائے جس کے ذریعے ہم دیکھ سکیں کہ کبھی دو دن ایک سے نہیں ہوتے۔ ہر نیا دن اپنے ساتھ ایک مختلف معجزہ لے کر آتا ہے، جو ہمیں سانس لینے، خواب دیکھنے اور سورج کی کرنوں کے درمیان دوبارہ سے چلنے کی اجازت دیتا ہے۔
خدا کرے کہ ہماری قوت سماعت اس قابل ہو جائے کہ ہم ان موزوں اور مناسب الفاظ کو سن سکیں جو بنا پوچھے ہمارے واقف کاروں کے منہ سے نکل جاتے ہیں جبکہ انھیں بالکل بھی اندازہ نہیں ہو پاتا کہ اس لمحے ہمارے اندر کیسی کشمکش چل رہی ہوتی ہے۔
خدا کرے کہ جب بھی ہم اپنا منہ کھولیں، صرف انسانی زبان نہ بولیں بلکہ فرشتوں کی بولی بھی بول پایئں اور کہیں: ‘معجزات کبھی قدرت کے قوانین کے خلاف نہیں جاتے، ہم ایسا سمجھتے ہیں کیونکہ ہمیں ان قوانین کا پتہ نہیں ہوتا۔’
اور جب ہم یہ حاصل کر لیں، خدا کرے کہ ہم اپنا سر تعظیم میں جھکا سکیں، اور کہیں: ‘میں نابینا تھا مگر اب میں دیکھ سکتا ہوں۔ میں گونگا تھا مگر اب میں بول سکتا ہوں۔ میں بہرہ تھا مگر اب میں سن سکتا ہوں۔ کیونکہ خدا نے میرے باطن کو اپنے معجزات سے منور کر دیا، اور جو کچھ میں سمجھتا تھا، کھو چکا ہے، وہ مجھے واپس مل گیا۔’