شرمین عبید چناۓ کی جانب سے ایک ڈاکٹر پر انکی بہن کو فرینڈ ریکویسٹ بھیجنے پر ہراساں کرنے کا الزام مضحکہ خیز لگا۔ آجکل کے فیس بک، وٹس ایپ اور ٹویٹر کے دور میں ایک مشہور و معروف اور اثر و رسوخ رکھنے والی براۓ نام لبرل خاتون ایسی حرکت صرف دو وجوہات کی بنا پر ہی کر سکتی ہے؛ ڈاکٹر صاحب کی فیس زیادہ تھی اور انکی تجویز کردہ ادویات مہنگی اور کم مؤثر یا بیچارے ڈاکٹر صاحب کوئ خاص خوبصورت آدمی نہیں ہیں۔ بہرحال وجہ کوئ بھی ہو، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف خواتین کو ہی ھراساں کیا جا سکتا ہے یا مرد حضرات بھی اس نعمت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جیسے کہ ابھی حال میں ہی ایک فلم و ٹی وی ایکٹریس، ہانیہ عامر، نے جہاز میں بیٹھے ایک نیک اور شریف مرد کی زبردستی تصویریں اتار کر کیا۔
ہراساں کرنا اور اپنی اتھارٹی یا طاقت کا ناجائز استعمال کرنا مہذب معاشروں میں ایک ہی پلڑے میں تولا جاتا ہے اور جس پر باقاعدہ ورکشاپس کروائ جاتی ہیں۔ ان ورکشاپس میں بڑا واضح طور پر یہ بتایا اور سمجھایا جاتا ہے کہ آپکے یا کسی دوسرے کے کون کون سے اقوال، افعال اور اعمال ہریسمنٹ کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ ان ورکشاپس کا اگر ہم انگلش والا کرکس یا اردو والا نچوڑ نکالیں تو وہ یہ ہو گا کہ آپکی کوئ بھی غیر اخلاقی حرکت جو دوسرے کو ناگوار گزرے اور وہ آپکو آگے سے کوئ لفٹ نہ کرواۓ، ھریسمنٹ کے دائرے میں آ سکتی ہے چاہے وہ مرد کی جانب سے ہو یا عورت کی۔ کیونکہ وھاں عورت کے بہت زیادہ حقوق ہونے کے باوجود وہ لوگ یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ دونوں اصناف انسان ہیں اور غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجنا جسے اپنی مرضی سے قبول یا رد کیا جا سکتا ہے، نہ کبھی اس زمرے میں تھی،ہے اور نہ ہی کبھی آۓ گی۔ ہاں اگر مرد حضرات بھی آجکل کی خواتین کی جانب سے ایسی درخواستوں کو یا حرکتوں کو ٹھرک کی بجاۓ سیریسلی لینا شروع کر دیں تو معاملات کافی حد تک بیلنسڈ ہو جائیں گے۔