ٹائم ٹریول۔سٹیفن ہاوکنگ کے ساتھ ۔ تحریر: قمر خان قریشی

ھیلو! میرا نام ’سٹیفن ھاکنگ‘ ہے۔ ایک فزیسسٹ، کوسمولوجسٹ اور کچھ خواب دیکھنے والا۔ ویسے تو میں ہل جل نہیں سکتا اور مجھے بولنے کے لئے بھی ایک کمپیوٹر کا سہارا لینا پڑتا ہے مگر میرا دماغ مکمل طور پر آذاد ہے۔ آزاد، اس کائنات کو کھوجنے کے لئے۔ آزاد، بڑے بڑے سوالات کرنے کے لئے۔ جیسے کہ کیا وقت میں سفر کرنا ممکن ہے؟ کیا  ہم  ماضی کا آستانہ کھول سکتے ہیں؟ یا مستقبل کا کوئی شارٹ کٹ ڈھونڈ سکتے ہیں؟ کیا ہم کبھی حتمی طور پر قدرت کے قوانین کو اس طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں کہ ہم وقت کے اوپر مکمل طور پر قادر ہو جائیں؟

یہ دیکھیں، ٹائم ٹریول یا وقت میں سفر کرناکبھی سائینٹفک بدعت سمجھا جاتا تھا۔ میں اس بارے میں بات تک نہیں کرتا تھا، اس خوف سے کہ لوگ مجھے پاگل قرار دے دیں گے، لیکن اب میں ایسا بالکل نہیں سوچتا، بلکہ میں خود کو ان لوگوں جیسا سمجھتا ہوں، جنھوں نے سٹون ہینج بنائے۔ دراصل میرے اوپر وقت کا خبط طاری ہے۔

اگر میرے پاس ٹائم مشین ہوتی تو میں ’میریلین مونرو‘ سے اسکے عروج کے زمانے میں ملنے جاتا یا ’گلیلیو‘ کے        سامنے اس وقت اترتا جس وقت وہ اپنا ’ٹیلیسکوپ‘ آسمانوں کی جانب بس کئے ہی چاھتا تھا۔ شاید میں کائنات کے آخری سرے پر بھی رخت سفر باندھتا، یہ جاننے کے لئے کہ آخر ہماری کائناتی کہانی کس طرح اختتام پذیر ہو گی۔ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے، ہمیں یہ جاننے کے لئے وقت کو ایک ماہر مادیات یا فزیسسٹ کی نظر سے دیکھنا ہو گا۔ چوتھی حدود العباد کے اندر جھانکنا ہوگا، یعنی کہ فورتھ ڈائمنشن کے اندر۔

یہ اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا سننے میں لگتا ہے۔ سکول کا ہر ایک نارمل بچہ جانتا ہے کہ ساری جسامت رکھنے والی چیزیں حالانکہ میں اور میری یہ کرسی بھی تین حدود العباد میں وجود رکھتی ہے۔ ہر چیز کی چوڑائی، اونچائی اور لمبائی ہوتی ہے۔ لیکن چوتھی حدود العباد میں ایک اور قسم کی لمبائی ہوتی ہے، اور وہ ہے وقت میں۔

جہاں ایک انسان صرف ۸۰ سال تک زندہ رہ سکتا ہے، وہاں سٹون ہینج کے پتھر، مثال کے طور پر، ہزاروں سالوں سے کھڑے ہیں اور ہمارا شمسی نظام اربوں برسوں سے چل رہا ہے اور مزید چلے گا۔ ہر شے کی دو لمبائیاں ہوتی ہیں، ایک وقت میں اور دوسری خلا میں۔ وقت میں سفر کرنے کا مطلب ہے اس چوتھی حدود العباد میں سفر کرنا۔

اسکا مطلب جاننے کے لئے ذرا تصور کریں کہ ہم روزمرہ روٹین کا ایک عام سا سفر اپنی گاڑی کے ذریعے کر رہے ہیں، ایک سیدھی لائن میں گاڑی چل رہی ہے، تو ہم ایک ڈائیمنشن میں سفر کر رہے ہیں، الٹے یا سیدھے ہاتھ پر مڑیں تو آپنے دوسری ڈائیمنشن جمع کر لی۔ اسی طرح آپ ایک پہاڑی راستے پر اوپر نیچے گاڑی بھگا رہے ہیں، تو یہ تیسری ڈائیمنشن ہے، یعنی اب آپ تینوں ڈائیمنشنز میں سفر کر رہے ہیں۔ لیکن آخر ہم وقت میں کس طرح سے سفر کر سکتے ہیں؟ ہم چوتھی ڈائیمنشن کو جانے والا رستہ ڈھونڈیں تو آخر ڈھونڈیں کیسے؟

چلیں، ایک چھوٹے سے سائنس فکشن کا مزا چکھتے ہیں۔ ٹائم ٹریول پر مبنی فلمیں اکثر ایک بہت دیوقامت ، کثیر توانائی سے چلنے والی مشینیں دکھاتی ہیں۔ یہ مشین چوتھی ڈائیمنشن کے ذریعے ایک رستہ بناتی ہے، وقت کے اندر سے گزرنے والی ایک سرنگ۔ ایک ٹائم ٹریولر یعنی وقت کا مسافر، ایک بہادر، تھوڑا اکھڑ سا بندہ، کسی انہونی کا سامنا کرنے کے لئے بالکل تیار، اس سرنگ میں داخل ہو جاتا ہے، اور پتہ نہیں کب اور کہاں سے باہر نکلتا ہے۔ یہ تصور ہو سکتا ہے کہ ناقابل اعتبار ہو اور حقیقت اس نظریہ سے بالکل مختلف ہو لیکن یہ آئیڈیا اتنا بھی احمقانہ نہیں ہے۔

فزیسسٹز بھی وقت کی ان سرنگوں کے بارے میں ہمیشہ سے سوچتے رہے ہیں لیکن ہم اسے ایک مختلف زاویئے سے دیکھتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ کیا کبھی ماضی یا مستقبل کے آستانوں کو کھوجنا، قدرت کے وضع کئے گئے قوانین میں رہتے ہوئے ممکن ہے؟ جیسے جیسے یہ سوچ جڑ پکڑتی ہے، ہمارے خیال سے ایسا ہو سکتا ہے۔ اور ہم نے تو انھیں نام بھی دے دیا ہے، ’ورم ہولز‘ یعنی ’کیڑے کا گھر‘۔

حقیقت میں ورم ہولز ہمارے ارد گرد ہی پائے جاتے ہیں، لیکن یہ صرف بہت ننھے منے ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔ یہ ہر کونے کھدرے میں، خلا میں اور وقت میں موجود ہوتے ہیں۔ آپکو یہ تصور مشکل لگ سکتا ہے، مگر میرے ساتھ رہیئے۔

اس دنیا میں کوئی چیز بھی بالکل سیدھی اور مکمل طور پر ٹھوس نہیں ہے، اگر آپ کسی بھی شے کو غور سے دیکھیں تو آپکو اس میں سوراخ اور جھریاں دکھائی دیں گی۔ یہ فزکس کا ایک بنیادی اصول ہے اور یہ اصول وقت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ پول بال جیسی ملائم شے میں بھی چھوٹے چھوٹے شگاف، جھریاں اور خالی جگہیں ہوتی ہیں۔ یہ سچ ہے کہ یہ پہلی تین ڈائیمنشنز میں دکھانا آسان ہے، لیکن میرا یقین کریں یہ چوتھی ڈائیمنشن کے لئے بھی اتنا ہی سچ ہے۔ وقت میں بھی چھوٹے چھوٹے شگاف، جھریاں اور خالی جگہیں موجود ہیں، چھوٹے پن کی سب سے آخری حد سالمہ سے بھی چھوٹی، ذرہ ’ایٹم‘ سے بھی چھوٹی۔ ہم ایک ایسے مقام پر پہنچتے ہیں جسے ’قوانٹم فوم‘ کہتے ہیں، اور یہاں ورم ہولز پائے جاتے ہیں، اس قوانٹم کی دنیا میں چھوٹی چھوٹی سرنگیں یا شارٹ کٹس؛ وقت یا خلا میں بنتے، غائب ہوتے اور پھر بنتے رہتے ہیں اور دراصل یہ دو مختلف جگہوں اور دو مختلف اوقات کو ملاتے ہیں۔

اب اسے بدقسمتی کہیں یا کچھ اورکہ حقیقی زندگی کی یہ وقتی سرنگیں ایک سنٹی میٹر کے اربوں کھربوں حصے پر مشتمل ہیں۔ کسی انسان کے اسکے اندر سے گزر جانے کے لئے بہت ہی چھوٹی۔ لیکن یہاں ورم ہول ٹائم مشین کا نظریہ اپنا کام کر رہا ہے۔ کچھ سائنسدانوں کے خیال میں یہ ممکن ہے کہ کسی ورم ہول کو پکڑا جائے اور اسے کھربوں گنا بڑا کر کے اس میں سے انسان یا کسی بھی خلائی جہاز کو گزارا جا سکے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کافی ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی اور پاور کے ساتھ شاید ایک بڑا ورم ہول خلا میں بنایا جا سکے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ہو سکتا ہے مگر اگر ایسا ہو جائے تو یہ ایک غیرمعمولی ڈیوائس ہو گی۔ اسکا ایک کونا یہاں کہیں زمین کے قریب ہو اور دوسرا دور، بہت دور کسی دوسرے سیارے کے پاس۔

نظریاتی طور پر، ایک وقت کی سرنگ یا ورم ہول ہمیں دوسرے سیاروں پر لیجانے سے کہیں زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر اسکے دونوں کونے ایک ہی جگہ رکھے جائیں، اور پھر علیحدہ کر دیئے جائیں؛ وقت کے بجائے فاصلے سے؛ خلائی جہاز اڑے، اور زمین کے آس پاس ہی کہیں سے نکلے، لیکن زمانہ ماضی میں۔ تو ہو سکتا ہے کہ ڈائینوسارز اس جہاز کو اترتے ہوئے دیکھیں۔

اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ چار ڈائیمنشنز میں سوچنا آسان نہیں ہے اور ورم ہولز کا تصور ایک سر گھما دینے والا خیال ہے۔ مگر ذرا رکیں، میں نے ایک آسان سا تجربہ کرنے کا سوچا ہے، جو یہ ظاہر کر سکتا ہے کہ انسان ابھی یا کبھی بھی، ورم ہول کے ذریعے سفر کر پائے گا۔

مجھے سادہ سے تجربات کرنا پسند ہیں اور ساتھ میں شیمپین بھی۔ اسلئے میں نے اپنی دونوں پسندیدہ چیزوں کو ساتھ رکھا، یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا مستقبل سے ماضی میں سفر کرنا ممکن ہے۔

یہ قیاس کرتے ہیں کہ میں ایک پارٹی دے رہا ہوں۔ ایک ویلکم پارٹی؛ مستقبل کے ٹائم ٹریولرز کو۔ لیکن اس میں ایک جھول ہے، میں کسی کو اس کے بارے میں اس وقت تک نہیں بتا رہا جب تک یہ پارٹی شروع ہو کر ختم نہیں ہو جاتی۔ میں نے دعوت نامہ تیار کر لیا ہے، جس میں وقت اور خلا کے بالکل صحیح کووارڈینیٹس دیئے گئے ہیں، اور میں یہ امید  کرتا ہوں کہ اسکی کاپیاں کسی نہ کسی صورت میں ہزاروں سالوں کے لئے موجود رہیں گی، ہو سکتا ہے کہ ایک دن کوئی مستقبل میں رہنے والا زندہ شخص اس معلومات کو حاصل کر لے اور ورم ہول ٹائم مشین کو استعمال کرتے ہوئے، میری پارٹی میں شامل ہو جائے، اور یہ ثابت ہو جائے کہ ٹائم ٹریول ایک روز ممکن ہو جائے گا۔

اسی اثنا میں میرے ٹائم ٹریولر مہمانوں کو کسی بھی لمحے آجانا چاھیئے؛ پانچ، چار، تین، دو، ایک۔۔۔لیکن کتنی شرم کی بات ہے کہ کوئی نہیں آیا۔ میں کم از کم مستقبل کی مس یونیورس کو اس دروازے سے اندر آتا دیکھنا چاھتا تھا۔

آخر تجربہ کامیاب کیوں نہیں ہوا؟ اسکی ایک وجہ ماضی میں ٹائم ٹریول کا مقبول مسئلہ ہو سکتا ہے؛ مسئلہ جسے ہم محال مجسم یعنی ’پیراڈوکس‘ کہتے ہیں۔

پیراڈوکسز کے بارے میں غور کرنا ایک دلچسپ مشغلہ ہے۔ سب سے بڑے اور مشہور پیراڈوکس کو ’گرینڈ فادرپیراڈوکس‘ کہتے ہیں۔ میرے پاس ایک نئی اور سادہ صورت ہے، اور میں نے اسے ’پاگل سائنسدان کے پیراڈوکس‘ کا نام دیا ہے۔

مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں کہ فلموں میں سائنسدانوں کو پاگل بتایا جاتا ہے، مگر اس کیس میں یہ بات سچ نظر آتی ہے۔ یہ بندہ پیراڈوکس بنانے میں پکا نظر آتا ہے، اسے اگر اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑیں تب بھی یہ پیچھے ہٹنے والا نہیں۔

فرض کریں کہ اس نے کسی طرح سے ایک ورم ہول سرنگ بنا لی ہے، جو ماضی میں صرف ایک منٹ تک پیچھے جا سکتی ہے، اس ورم ہول کے ذریعے یہ سائنسدان خود کو ایک منٹ پہلے جیسا دیکھ سکتا ہے۔ لیکن کیا ہو اگر ہمارا یہ سائنسدان اس ورم ہول کو استعمال کرتے ہوئے، خود کو گولی مار دے؟ وہ تو مر گیا، پھر گولی کس نے چلائی؟

یہ پیراڈوکس ہے جس کی کوئی تک نہیں بنتی۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جو سائنسدانوں کی نیندیں حرام کر چکی ہے۔

اس قسم کی ٹائم مشین کائنات کو چلانے والے بنیادی اصول کی خلاف ورزی کرے گی؛ جسکی بنا پر ’ہونا‘، ’اثر‘ کرنے سے پہلے ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ کبھی بھی اسکے الٹ نہیں ہو سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی شے خود کو ناممکن نہیں بنا سکتی۔ اگر ایسا ہو پاتا تو کوئی بھی طاقت کائنات کو گڑبڑ سے نہیں بچا سکتی تھی۔ اسلئے میرے خیال سے ہمیشہ ایسا کچھ ہوگا جو پیراڈوکس کو ہونے سے روکے گا۔ کسی نہ کسی صورت ضرور کوئی ایسی وجہ بنے گی کہ ہمارا سائنسدان کبھی خود کو گولی نہیں مار پائے گا۔ اور اس صورت میں، معاف کیجیئے، ورم ہول خود ایک بڑا مسئلہ ہے۔

اب میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ میرے خیال میں ایسا ورم ہول وجود میں نہیں آسکتا کیونکہ اسکی وجہ ’فیڈبیک‘ ہے۔ اگر آپ کبھی کسی میوزیکل شو میں گئے ہیں تو آپ یقینناُ اس سکریچنگ شور سے آشنا ہوں گے۔ یہ فیڈبیک ہوتا ہے۔ یہ بنتا کیسے ہے، بہت آسان ہے۔ آواز مائیک میں داخل ہوتی ہے، تاروں کے ذریعے سفر کرتی ہے، ایمپلیفائیر کے ذریعے اونچی کی جاتی ہےاور سپیکرز سے باہر نکلتی ہے۔ لیکن اگر بہت زیادہ آواز سپیکرز سے واپس مائیک میں جاتی ہے تو یہ تاروں میں چکر لگاتی رہے گی۔ اگر اسے روکا نہ جائے تو یہ فیڈبیک پورے سائونڈ سسٹم کو تباہ کر سکتا ہے۔

یہی کچھ ساونڈ سسٹم کے ساتھ بھی ہوگا۔ فرق صرف آواز کی جگہ تابکاری کا ہوگا۔ جیسے ہی ورم ہول پھیلے گا، قدرتی تابکاری اس میں داخل ہو جائے گی اور آخر ایک لوپ یعنی پھندے کی شکل اختیار کر لے گی۔ فیڈبیک اتنا طاقتور ہو جائے گا کہ ورم ہول کو تباہ کر دے گا، باوجود اس حقیقت کے کہ ورم ہولز وجود رکھتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک دن ہم کسی کو پھیلانے میں کامیاب بھی ہو جائیں مگر اسکی عمر اتنی نہ ہو گی کہ اسے ٹائم مشین کے طور پر استعمال کیا جا سکے، اور یہی اصل وجہ تھی کہ کوئی بھی میری پارٹی میں نہیں آسکا۔

ماضی میں کسی بھی قسم کا ٹائم ٹریول کرنا، چاھے وہ ورم ہولز کے ذریعے ہو یا کسی اور طریقے سے، تقریباٗ ناممکن ہے، ورنہ پیراڈوکسز کا وجود لازمی ہوتا۔

افسوس صد افسوس! ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں سفر کرنا کبھی بھی ممکن نہ ہو پائے گا۔ ڈائینوسارز کے شکاریوں کے لئے مایوسی اور تاریخ دانوں کے لئے سکھ کے سانس کی گھڑی۔

لیکن کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ نظریہ سارے ٹائم ٹریول کو ناممکن نہیں بنا سکتا۔ میں ٹائم ٹریول میں اب بھی پورا یقین رکھتا ہوں۔ اور وہ ہے؛ مستقبل کے اندر ٹائم ٹریول۔ وقت ایک دریا کی مانند بہتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم سب وقت کے بے رحم دھارے کے ساتھ بہتے چلے جا رہے ہیں، لیکن وقت کسی اور طریق دریا کے مشابہ ہے۔ یہ مختلف جگہوں پر مختلف رفتار کے ساتھ چلتا ہے اور یہی مستقبل میں سفر کرنے کی چابی ہے۔ یہ آئیڈیا تقریباٗ سو سال پہلے البرٹ آئنسٹائن نے پیش کیا تھا۔ اس نے محسوس کر لیا تھا کہ کچھ مقامات ایسے ہونے چاھیئیں، جہاں وقت کی رفتار مدھم پڑ جائےاور کہیں یہ رفتار تیز ہو جائے۔ وہ بالکل ٹھیک تھا، جسکا ثبوت ٹھیک ہمارے سروں کے اوپر ہے، اوپر خلا میں۔

یہ گلوبل پوزیشننگ سسٹم جسے جی پی ایس بھی کہتے ہیں، زمیں کے گرد ۳۱ سیٹیلائٹس کا ایک وسیع نیٹ ورک۔ سیٹیلائیٹس، سیٹیلائیٹ نیویگیشن کو ممکن بناتے ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ خلا میں وقت، زمین کی نسبت تیز دوڑتا ہے۔ ہر خلائی جہاز میں ایک بہت باقاعدہ گھڑی نسب کی جاتی ہے، لیکن باوجود اتنا صحیح ہونے کے، ایک خلائی جہاز ہر روز ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ زائد کرتے رہتے ہیں۔ اس سسٹم کو خرابی سے بچنے کے لئے خود کو ٹھیک کرنا پڑتا ہے، ورنہ یہ چھوٹا سا فرق سارے سسٹم کا بیڑا غرق کر سکتا ہے۔ جسکے نتیجہ میں زمین میں لگی ہر جی پی ایس ڈیوائس چھ میل فی دن کے حساب سے آوٗٹ ہو سکتی ہے۔ آپ اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

مسئلہ گھڑیوں کے ساتھ نہیں ہے۔ گھڑیاں تیز چلتی ہیں کیونکہ خلا میں وقت زمین کی نسبت تیز دوڑتا ہے، اور اس غیر معمولی بات کی وجہ زمین کا اپنا مادہ یا جوہر ہے۔ آئنسٹائن نے محسوس کیا کہ مادہ وقت پر خود کو گھیسٹتا ہےاور اسکی رفتار بالکل اسی طرح کم کرتا ہے، جیسے دریا کا ایک کم دباوٗ والا بھاری حصہ زمین پر آہستگی کے ساتھ گھسیٹا جاتا ہے۔ اور یہی چونکا دینے والی حقیقت، دراصل مستقبل میں ٹائم ٹریول کے دروازے کھولتی ہے۔

ایک آسان سی مثال لیتے ہیں۔ یہ گیزا کا عظیم اہرام ہے۔ اسکا وزن چالیس ملین ٹن سے زیادہ ہے اور ہر بھاری چیز کی ۔ طرح یہ دراصل وقت کو آہستہ کر رہا ہے۔ یہاں اثر بہت کم ہے،باقی زمین سے کھربوں گنا کم۔ لیکن اگر ہم اس پر غور کریں تو آپکو یہ قانون کام کرتا نظر آئے گا۔ تصور میں لائیں، اہرام کے ارد گرد ہر چیز کی رفتار آہستہ ہو گئی ہے، کسی بہتے دریا کے بھاری اور سست حصے کی مانند۔ یہاں وقت باقی دنیا کی نسبت آھستگی سے گزر رہا ہے۔ لیکن کیا ہو اگر اہرام کے پاس موجود لوگ، باھر کی طرف دیکھیں تو انھیں لازمی طور پر الٹ حقیقت دکھائی دینی چاھیئے کیونکہ وہ تو آہستہ کر دیئے گئے ہیں، انھیں وقت تیز گزرتا دکھائی دے گا۔ یہ اہرام کے حجم کا ایک آسان اور سادہ سا نتیجہ ہے۔

یہ توڑ مروڑ ٹائم ٹریول کو ممکن بناتی ہے۔ اس لئے ہمیں ٹائم ٹریول کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے، اس اہرام سے بھی بہت بڑی کوئی شے درکار ہے۔ اور مجھے ایک ایسی چیز مل چکی ہے جسے ’بلیک ہول‘ کہتے ہیں۔ چا سو ملین سورجوں کے جتنا مادہ لئے ہوئے اور ایک ہی پوائنٹ پر ٹوٹ کر اپنی ہی کشش ثقل میں جمع ہوتے ہوئے۔

آپ جتنا بلیک ہول کے قریب ہوتے جاتے ہیں، کشش ثقل اتنی ہی مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ بالکل قریب ہوجانے پر، روشنی تک نہیں گزر پائے گی۔ اسلئے یہ مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے، اور اسکا قطر ہے؛ ۱۵ ملین میل۔ اسطرح بلیک ہول کا وقت پر ڈرامائی اثر ہوتا ہے، کسی بھی اور شے کی نسبت بہت ہی زیادہ وقت کی رفتار کو کم کرنے کی صلاحیت اس میں پائی جاتی ہے۔ اور یہ خصوصیت اسے قدرتی ٹائم مشین بناتی ہے۔

میں یہ تصور میں لانا چاھوں گا کہ کیسے کوئی خلائی جہاز اس شاندار اور حیرت انگیز تجربہ سے فائدہ اٹھائے گا۔ ظاہر ہے، اسے سب سے پہلے خود کو کسی بھی حادثہ کا شکار ہونے سے بچانا پڑے گا۔ اسے ہمیشہ صحیح رستے پر صحیح رفتار کے ساتھ چلنا پڑے گا۔ یہ سب کچھ ٹھیک طرح سے ہو گیا تو جہاز محور میں داخل ہو جائے گا، جسکا قطر ۱۳ ملین میل کا ہے۔ یہاں یہ محفوظ ہوگا۔ اسکی رفتار اسے گرنے سے بچائے گی۔ اگر کوئی خلائی ایجنسی اس مشن کو زمین سے کنٹرول کر رہی ہو تو وہ دیکھیں گے کہ ہر مدار نے سولہ منٹ لئے۔ مھر ان بہادر لوگوں کے لئے جو اس خلائی جہاز میں موجود ہوں گے، وقت کی رفتار کم پڑ جائے گی، اور یہاں اسکا اثر زمین کی کشش ثقل سے بہت زیادہ ہوگا۔ عملے کا وقت گھٹ کر آدھا رہ جائے گا، یعنی ہا سولہ منٹ کا مدار ان کے لئے صرف ۸ منٹ کا ہوگا۔

یہ جہاز اور اسکا عملہ حقیقتاٗ ہم لوگوں کے مقابلے، جو بلیک ہول سے دور ہیں، اسکے گرد چکر کاٹنے میں آدھا وقت صرف کریں گے کیونکہ وہ لوگ اصل میں وقت کے اندر سے گزر رہے ہوں گے۔ فرض کریں کہ انھوں نے وہاں کے ۵ سال تک چکر لگائے، کہیں اور ۱۰ سال گزر گئے ہوں گے۔ جب وہ واپس گھر پہنچیں گے تو ہر کوئی عمر میں انسے پانچ سال بڑا ہوگا۔

تو ایک بہت بڑا بلیک ہول ٹائم مشین بن سکتا ہے لیکن ظاھر ہے یہ اتنا پریکٹیکل نہیں ہے۔ ورم ہولز کے مقابلے میں اسے یہ برتری حاصل ہے کہ یہ پیراڈوکسز کو جنم نہیں دیتا اور نہ ہی یہ فیڈبیک کی وجہ سے تباہ ہوگا، لیکن کافی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک تو یہ بہت دور بھی ہے اور ہمیں مستقبل میں زیادہ آگے تک لے جا بھی نہیں سکتا۔ مگر خوشقسمتی سے ٹائم میں سفر کرنے کا ایک اور رستہ بھی ہے اور یہ ہماری آخری مگر بہترین امید ہے۔

آپکو صرف سفر کرنا ہے، تیز، بہت تیز، بہت زیادہ تیز۔

اتنا تیز کہ آپ بلیک ہول میں پھنسے بغیر آگے نکل جائیں۔ ایسا ایک اور عجیب و غریب کائناتی حقیقت کی وجہ سے ممکن ہے۔ کائناتی رفتار کی حد ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ ہے، جسے روشنی کی رفتار بھی کہا جاتا ہے۔ اس رفتار سے تیزتر اور کوئی شے نہیں۔ یہ سائنس کا قاےم کردہ ایک بہترین اصول ہے۔ یقین کریں یا نہیں، روشنی کی رفتار کے آس پاس سفر کرنے سے آپ مستقبل میں پہنچ جائیں گے۔

اسکو تفصیل سے سمجھنے کے لئے ایک سائنسی خواب دیکھتے ہیں، ایک ٹرانسپورٹیشن سسٹم کا خواب۔ فرض کریں کہ ایک پٹری ہے جو زمین کے گرد بچھی ہوئی ہے، ایک سپر فاسٹ ٹرین کی پٹری، ہم اس خیالاتی ٹرین کو روشنی کی رفتار سے چلاتے ہوئے استعمال کریں گے اور دیکھیں گے کہ یہ کیسے ایک ٹائم مشین میں بدل جاتی ہے۔ اس ٹرین میں  یکطرفہ ٹکٹ لئے کچھ مسافر مستقبل کو جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ ٹرین چلنا شروع کرتی ہے، تیز اور تیز اور تیز۔ اور جلد ہی زمین کے گرد چکر کاٹنا شروع کر دیتی ہے۔ روشنی کی رفتار پکڑنے کا مطلب ہے، زمین کے گرد کافی تیز تیز چکر کاٹنا۔ ایک سیکنڈ میں سات دفعہ۔ لیکن چاھے ٹرین کتنا بھی زور لگا لے، روشنی کی رفتار حاصل نہیں کر سکتی، کیونکہ فزکس کے قوانین ایسا ہونے نہیں دیتے۔ اسکے باوجود اگر وہ اسکے قریب قریب بھی رفتار پکڑ لے تو کچھ غیر معمولی ہو پائے گا۔ ٹائم باقی دنیا کی نسبت ٹرین کے اندر آہستہ ہو جائے گا، بالکل ویسے ہی جیسے بلیک ہول کے پاس۔ اب ٹرین میں ہر چیز سلو موشن میں حرکت کر رہی ہے۔

ایسا رفتار کی حد کو محفوظ رکھنے کے لئے ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے یہ جاننا مشکل نہیں۔ ذرا تصور کریں کہ ایک بچی ٹرین میں بھاگ رہی ہے۔ اسکی آگے بڑھنے کی رفتار، ٹرین کی رفتار میں جمع ہو جاتی ہے، تو کیا وہ رفتار کی حد حادثاتی طور پر پار نہیں کر جائے گی؟ اسکا جواب ’نہیں‘ ہے۔ قدرت کے قوانین ایسا ہونے سے روکنے کے لئے وقت کی رفتار کو ٹرین کے اندر کم کر دیتے ہیں، اب وہ اتنا تیز نہیں بھاگ پائے گی کہ حد پار کر جائے۔ وقت ہمیشہ رفتار کی حد کو محفوظ کرنے کے لئے آہستہ ہو جائے گا، اور اسی حقیقت کی وجہ سے مستقبل میں کئی سال اندر تک سفر کرنا ممکن ہے۔

فرض کریں کہ ایک ٹرین ۱ جنوری ۲۰۵۰ کو روانہ ہوئی اور زمین کے گرد ۱۰۰ سال تک چکر کاٹتی رہی اور ۲۱۵۰ میں نئے سال کے پہلے دن رک گئی۔ مسافروں نے صرف ایک ہفتہ سفر کیا ہوگا، کیونکہ ٹرین کے اندر وقت اس حساب سے آہستہ ہو گیا۔ جب وہ باہر نکلیں گے تو ایک بالکل علیحدہ اور نئی دنیا پائیں گے، اس دنیا سے قدرے مختلف جو وہ چھوڑ کر گئے تھے۔ ایک ہفتہ میں انھوں نے ۱۰۰ سال مستقبل میں سفر کیا ہوگا۔ ظاھر ہے، ایسی ٹرین بنانا تقریباٗ ناممکن ہے، مگر ہم نے اس سے ملتی جلتی ایک شے بنا لی ہے جو سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں ایک ’پارٹیکل ایکسیلیریٹر‘ ہے۔

زیرزمین ایک گول سرنگ، جو سولہ میل لمبی ہے، میں کھربوں کی تعداد میں ننھے ننھے پارٹیکلز کی ایک نہر ہے۔ جب پاور آن کی جاتی ہے تو یہ ایک سیکنڈ کے چھوٹے سے حصے میں صفر سے ساٹھ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار حاصل کر لیتے ہیں۔ پاور بڑھاتے جائیں تو یہ پارٹیکلز تیز سے تیز تر ہوتے جاتے ہیں، یہاں تک کے اس سرنگ کے ۱۱۰۰۰ چکر فی سیکنڈ کے حساب سے لگانا شروع کر دیتے ہیں، جو تقریباٗ روشنی کی رفتار ہے، لیکن بالکل ٹرین کی طرح وہ کبھی حتمی رفتار حاصل نہیں کر پاتے مگر اسکا ۹۹۔۹۹ فیصد حاصل کر لیتے ہیں اور جب ایسا ہوتا ہے تو وہ بھی ٹائم میں سفر کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ہمیں یہ کچھ بہت ہی کم عمر پارٹیکلز کی بدولت معلوم پڑا۔ ان پارٹیکلز کو ’پائے میسونز‘ کہا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ صرف ایک سیکنڈ کے پچیس اربویں حصے میں ختم ہو جاتے ہیں، مگر جب انھیں روشنی کی رفتار کے قریب قریب  بھگایا جاتا ہے تو انکی عمر ۳۰ گنا بڑھ جاتی ہے۔

یہ اتنا ہی آسان ہے، اگر ہم مستقبل میں سفر کرنا چاھتے ہیں تو ہمیں تیز جانا ہو گا، بہت تیز اور میرے خیال سے ایسا کرنا صرف تب ممکن ہو سکتا ہے جب ہم خلا میں جائیں۔ سب سے زیادہ رفتار والی انسانی گاڑی اپولو تھی، جسکی ٹاپ رفتار ۲۵۰۰۰ میل فی گھنٹہ تھی، مگر ٹائم میں سفر کرنے کےلئے ہمیں اس سے ۲۰۰۰ گنا تیز جانا ہوگا اور ایسا کرنا کے لئے ہمیں ایک بہت بڑا جہاز درکار ہوگا، ایک زبردست قسم کی مشین۔ وہ جہاز بہت بڑا ہونا چاھیئے اور اتنا ایندھن اپنے ساتھ لے جاسکے جو اسے روشنی کی رفتار کے قریب تر پہنچا دے۔ اس کائناتی رفتار کی حد کو چھونے کے لئے اس جہاز کو پورے چھ سال لگیں گے۔

پہلے رفتار سست ہوگی کیونکہ جہاز بہت بڑا اور بھاری ہوگا لیکن آہستہ آہستہ یہ رفتار پکڑنے لگے گا اور جلد ہی دور دراز کے فاصلے طے کر لے گا۔ ایک ہفتے میں یہ دوسرے سیاروں تک پہنچ جائے گا، دو سال بعد یہ روشنی کی آدھی رفتار تک پہنچے گا اور ہمارے نظام شمسی سے باہر نکل جائے گا۔ مزید ۲ سال بعد یہ روشنی کی رفتار کا ۹۰ فیصد حاصل کر لے گا۔ تقریباٗ زمین سے ۳۰ کھرب میل دور۔ اور ان چار سالوں میں یہ جہاز وقت کے اندر سفر کرنا شروع کر دے گا۔ ہر ایک گھنٹہ جہاز میں زمین کے دو گھنٹوں کے برابر ہو گا۔ یہاں بالکل ویسی ہی صورتحال ہو گی جیسے بلیک ہول کے گرد پہلے خلائی جہاز کی تھی۔ مزید ۲ سال میں اپنی مکمل طاقت کے بل بوتے پر یہ جہاز اپنی ٹاپ سپیڈ حاصل کر لے گا جو روشنی کی رفتار کے ۹۹  فیصد ہو گی۔ اس رفتار کے ساتھ جہاز میں گزارا ہوا ہر ایک دن زمین کے ایک سال کے برابر ہوگا اور ہمارا یہ جہاز حقیقی معنوں میں مستقبل میں اڑ رہا ہوگا۔

 

 

Leave a Comment

Verified by MonsterInsights