تحریر: پاوٰلو کوہلو
ترجمہ: قمر خان قریشی
قدرت کے چرخ یا چکر میں جیت یا ہار جیسی کوئ شے نہیں ہوتی: صرف مسلسل حرکت ہوتی ہے۔
سردی کا موسم ہمیشہ راج کرنے کی بھرپور کوشش کرنے کے باوجود آخرکار بہار کی جیت کے آگے ممنون ہو کر ہتھیار ڈال دیتا ہے، جو اپنے ساتھ ڈھیر سارے پھول اور خوشیاں لاتا ہے۔
گرمی کا موسم اپنے سخت دنوں کے ساتھ ہمیشہ رہنے کی تمنا کرتا ہے، کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ گرمی زمین کے لئے اچھی ہوتی ہے مگر آخرکار اسے بھی خزاں کی آمد کو خوشدلی کے ساتھ قبول کرنا پڑتا ہے، جو زمین کوتھوڑا آرام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
ہرن گھاس کو کھاتا ہے اور خود شیر کی غذا بنتا ہے۔ یہ خدا کا اپنا طریقہ ہے، موت اور قیامت کا چکر دکھانے کا، نہ کہ یہ بتانے کا کہ کون کتنا قوی ہے۔ اور اس سارے چکر میں کوئ جیتتا یا ہارتا نہیں ہے، بس صرف چند مراحل ہیں، جن میں سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔ جب انسان کا دل یہ حقیقت جان لیتا ہے تو وہ آزاد ہو جاتا ہے، کٹھن اوقات کو قبول کرنے کے قابل ہو جاتا ہے اور شان و شوکت کے لمحوں سے دھوکا نہیں کھاتا۔
دونوں گزر جاتے ہیں۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں۔ اور یہ چکر چلتا رہتا ہے جبتک ہم خود کو اس چمڑی سے آزاد نہیں کر لیتے اور زبردست خدائ طاقت کو ڈھونڈ نہیں لیتے۔
لہذا، جب کھلاڑی اکھاڑے میں ہوتا ہے، چاہے اپنی مرضی سے یا سمجھ بوجھ سے بالاتر قسمت کے ہاتھوں، اللہ کرے اسکی روح آنے والی لڑائ کی پیش اندیشی سے خوش ہو۔ اگر وہ اپنی شان اور اکرام کا دامن نہ چھوڑے تو پھر اگرچہ وہ لڑائ ہار بھی جائے، اسکی شکست کبھی نہیں ہوگی، کیونکہ اسکی روح سالم و کامل رہے گی۔
اور وہ کسی دوسرے کو اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی کام کا الزام نہیں دے گا۔
اسکے بعد اگر وہ محبت میں ناکام ہو بھی گیا تو یہ ہار اسکی محبت کرنے کی قابلیت پر اثرانداز نہیں ہو پائے گی۔
جو محبت میں سچ ہوتا ہے وہ جنگ میں بھی سچ ہوتا ہے۔