تحریر: پاؤلو کوہلو ترجمہ: قمر خان قریشی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چین کے ایک غریب سے گاؤں میں ایک شخص اپنے بیٹے کے ہمراہ رہا کرتا تھا۔ انپڑھ اور غریب ہونے کے باوجود خدا نے اسے بڑی ذہنی وسعت سے نوازا تھا۔ چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے اور ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی کے علاوہ اس کا کل اثاثہ ایک گھوڑا تھا جو اس نے اپنے باپ سے وراثت میں حاصل کیا تھا۔
ایک دن اس کا گھوڑا کہیں بھاگ گیا اور اس کے پاس کاشتکاری کے لیے کوئی جانور نہ رہا۔ اس کے پڑوسی، جو اس کی ایمانداری اور محنت کی وجہ سے اس کی بہت عزت کرتے تھے، اس کے گھر افسوس کرنے آئے۔ اس شخص نے ان کے آنے پر ان کا شکریہ ادا کیا، مگر پوچھا:
“آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ بھی میرے ساتھ ہوا وہ بدقسمتی کی نشانی ہے؟”
یہ سن کر کسی نے ساتھ والے کے کان میں سرگوشی کی “یہ حقیقت کو قبول نہیں کر پا رہا, جو یہ سوچتا ہے اسےسوچنے دو، یوں لگتا ہے جیسے یہ صدمے کی حالت میں ہے۔”
اور پڑوسی وہاں سے چلے آئے یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ جو کچھ انہوں نے سنا وہ صحیح تھا۔
تقریبا ایک ہفتے کے بعد اس کا گھوڑا واپس آگیا، مگر اب وہ اکیلا نہیں تھا؛ وہ اپنی سنگت کے لیے ایک خوبصورت گھوڑی بھی ساتھ لے کر آیا تھا۔ یہ سن کر، گاؤں والے جنھیں اب اس شخص کے اس دن کے جواب کی کچھ کچھ سمجھ آ چکی تھی، دوبارہ اس کے گھر گئے تاکہ اسے اس کی اچھی قسمت پر مبارکباد دے سکیں۔
“پہلے تمہارے پاس صرف ایک گھوڑا تھا مگر اب دو ہیں۔ مبارک ہو!” وہ بولے۔
“آپ سب کی تشریف آوری اور مبارکباد کا شکریہ.” اس شخص نے جواب دیا۔ “مگر آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ اچھی قسمت کی نشانی ہے یا میری زندگی میں آنے والی ایک نعمت ہے؟”
مضطرب، اور یہ سوچتے ہوئے کہ وہ پاگل ہو چکا ہے، پڑوسی اپنے اپنے گھروں کو چلتے بنے، راستے میں کوئی بولا، “کیا یہ واقعی نہیں سمجھتا کہ خدا نے اس کے لیے ایک تحفہ بھیجا ہے؟”
ایک مہینے بعد،اس کے بیٹے نے سوچا کہ گھوڑی کو سدھایا جائے۔ ایسا کرنے کی کوشش میں گھوڑی نے اسے گرا دیا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
ایک دفعہ پھر گاؤں والے اس کے بیٹے کی عیادت کرنے کچھ تحفے تحائف لےکر اسکے ہاں پہنچے۔ گاؤں کے سردار نے بھی افسوس کا پیغام پہنچایا اور کہا کہ ان سب کو اس واقعہ کا نہایت دکھ ہے۔
اس دفعہ بھی اس شخص نے ان کا شکریہ ادا کیا، مگر پوچھا:
“آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہوا وہ بدقسمتی کی نشانی ہے؟”
وہ سب یہ سن کر حیران رہ گئے کیونکہ کسی کے دل میں ذرا برابر بھی شک نہ تھا کہ یہ واقعہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ جب وہ اسکے گھر سے نکلے تو بولے “یہ تو بالکل پاگل ہو چکا ہے، اس کا اکلوتا بیٹا ساری زندگی کے لیے لنگڑا ہو سکتا ہے مگر اسے ابھی تک اپنی بدقسمتی کا احساس نہیں ہوا۔
کچھ مہینے گزرنے کے بعد جاپان نے چین پر حملہ کر دیا۔ بادشاہ کے ایلچی سارے ملک میں صحت مند اور جوان مردوں کی تلاش میں نکل پڑے تاکہ انہیں جنگی محاذ پر بھیجا جا سکے۔ گاؤں پہنچنے پر انہوں نے سارے جوان مردوں کو بھرتی کرلیا سوائے اس کے جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی۔
ان میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ اس کا بیٹا ٹھیک ہوگیا، دونوں جانوروں نے بچے دیے جنھیی اچھی قیمت پر فروخت کر دیا گیا۔ کیونکہ اس کے پڑوسیوں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا اس لیے وہ بھی ان کی دلجوئی اور مدد کے لیے ایک ایک کے پاس پہنچا۔ جب بھی کسی نے حرف شکایت زبان پر لایا، تو وہ بولا: “تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ ایک نقصان ہے؟” اور جب بھی کوئی خوشی سے پھولا نہ سماتا تو وہ کہتا,”تمہیں کیسے معلوم کہ یہ ایک نعمت ہے؟” اور آخر کار اسطرح گاؤں والوں کو یہ بات سمجھ آگئی کہ زندگی کے اصل معنی کچھ اور ہی ہیں۔