میری یہ کہاوت میری لکھی ہوئ سب سے پہلی کہاوت کا درجہ رکھتی ہے جو میں نے ہمارے معاشرے کی ایک ایسی سوچ کو مد نظر رکھ کر لکھی جس نے ہمیں جانے انجانے میں کافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر بالکل سادہ الفاظ میں اس کی تشرہح کی جاۓ تو وہ کچھ یوں ہو گی کہ انسان جو خود کو بہت دانا و عقلمند خیال کرتا ہے، اکثر اسی دھوکے میں مار کھا جاتا ہے۔ جن لوگوں کو ہم برا اور اپنے لۓ نقصان دہ سمجھتے ہیں، خاص طور پر اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں کو وہ عمومآ اتنے برے نہیں ہوتے۔ اسکی بہترین مثال آپ کو تب ملتی ہے جب آپ اپنی اولاد خاص طور پر بیٹی کی شادی کسی اپنے کے بجاۓ باہر کے اجنبی لوگوں میں کروا دیتے ہیں۔ اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تمام اجنبی لوگ برے نکلتے ہیں مگر اکثریت آجکل کے مادہ پرست دور میں لالچ اور طمع کا شکار ہے۔ اسی طرح سے اور کسی بھی کام مثلآ کاروبار میں شراکت داری، لین دین کے معاملات یا صرف مشورہ بھی ھم غیروں کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ والدین اپنے بچوں چاہے وہ بیٹا ہو یا بیٹی، کی بہتر تربیت نہیں کر پاتے اور میڈیا خاص طور سے ٹی وی اور انٹرنیٹ نے رہی سہی کثر بھی پوری کر دی ہے۔ اسکے علاوہ ہمارے معاشرے کی وہ خامیاں اور محرومیاں بھی اپنا اثر دکھاتی ہیں جنکا ایک مہذب دنیا میں تصور بھی کرنا محال ہوتا ہے۔ جسکی وجہ سے عدم برداشت اور غصہ ھماری نئ نسل میں کوٹ کوٹ کر بھرا جا چکا ہے۔
بہرحال یہ وہ چند وجوہات ہیں جنکا صفایا فی الحال تو ممکن نظر نہیں آتا لیکن اگر ہم من حیث القوم ان خرافات کو کم کرنے کے لۓ تھوڑی بہت کوشش کر لیں تو بہتر نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں۔ زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنوں پر اور اپنے ہم پر کھویا ہوا اعتماد بحال کریں اور دوسرے کی چھوٹی موٹی انسانی خامیوں کو نظر انداز کرنا سیکھیں۔ کسی غیر کے ھاتھوں لٹنے سے بھتر ہے کہ ہم کسی اپنے کی کوتاہیوں اور خامیوں کو نگاہ میں رکھ کر اسے گلے سے لگائیں اور کھل کر بات چیت کے ذریعے پیار محبت سے معاملات نبٹائیں